بقلمِ نیم خرد، خادمِ عقلِ معطل، مریدِ سرشار فقیر
گزشتہ شب عالمِ خواب میں غرق تھا، نیند کا ایسا میٹھا دورہ پڑا تھا کہ گویا کسی حکیم کے نسخۂ خاص سے ہو کر آیا ہو، کہ یکایک ایک عجیب سی آہٹ نے خوابوں کے شیش محل کو چٹخا دیا، آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے کمرے کے گوشۂ فرش پر رکھے صوفے پر خود پنڈت رتن ناتھ سرشار، جنہیں میں عرصۂ دراز سے محض کتابوں میں پایا کرتا تھا، بنفسِ نفیس جلوہ افروز ہیں.
چہرے پہ ایسی کثیف پریشانی جیسے کوئی منشی گمشدہ رسیدی رجسٹر تلاش کر رہے ہوں، اور نگاہیں گویا کسی سلطنت کے زوال پر نوحہ کناں. میں نے عینک پہنی، پاجامہ ٹھیک کیا، اور سہمی سی آواز میں عرض کی،
“پنڈت جی! خیر تو ہے؟”
فرمایا، “میاں خیر کاہے کی؟ بڑا ظلم ہو گیا، بہت بڑا ظلم!”
میں نے گھبرا کر عرض کی، “کیا غضب ہو گیا؟ کہیں کوئی حملہ ہو گیا؟ یا کوئی وزارت بدل گئی؟”
فرمایا، “صف شکن پھر سے اُڑ گیا!”
میں نے چونک کر پوچھا، “صف شکن؟”
کہنے لگے، “ہاں بھئی صف شکن! خاصے کوڑ مغز ہو، نواب صاحب کا صف شکن۔ وہی، جس پر سارا دربار فخر کرتا ہے، جس کی چیخوں سے دوسرے بٹیر کانوں پر پَر رکھ لیتے ہیں۔”
میں نے تسلی دی، “ارے پنڈت جی، کوئی بات نہیں، پہلے بھی تو اُڑ گیا تھا، پھر واپس آ گیا تھا”
چہرہ مایوسی سے کھینچ کر بولے، “پہلے کی بات کچھ اور تھی، زمانہ اور تھا۔ آجکل تو سرحد پر بھی ماحول اچھا نہیں۔ اللہ نہ کرے، اگر اس بار سرحد پار نکل گیا تو نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ نواب صاحب تو برداشت نہ کر پائیں گے۔ ان کی کل متاع ہی وہ صف شکن ہے۔”
میں نے تھوک نگل کر ڈرتے ڈرتے پوچھا، “کون سی سرحد؟ مغربی یا مشرقی؟”
پنڈت جی نے چھت کی طرف دیکھا، جیسے جواب آسمان سے اترے گا، پھر غصے کو نگلتے ہوئے بولے، “ہاں، ٹھیک کہتے ہو، تم لوگوں کے لیے تو ہر سمت ہی ابتری ہے۔ مگر میں تو اس وقت مشرق والی بابت فکرمند ہوں۔”
میں نے عرض کی، “وہاں تو شاکاہاری بستے ہیں، زیادہ سے زیادہ دال بھجیا سے مدافعت کریں گے۔”
فرمایا، “لاحول ولا! ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ تم لوگ نواب کی فکر نہیں کرتے۔ بیچارہ اس صف شکن کے بغیر کیسے رہے گا؟ دربار بھر میں اس کا رعب تو بس اُسی پر قائم ہے۔ بلکہ دربار سجا ہی صف شکن کی وجہ ورنہ خود نواب صاحب کو تو خال خال ہی کوئی پوچھتا ہے۔”
پھر پنڈت جی نے پرانے زمانے کے قصے سنانے شروع کیے، کہ صف شکن نے کیا کیا معرکے سر کیے، کیسے ہر بار میدان مارا، کیسے حریفوں کو چونچ سے گھسیٹا، اور کیسے ایک بار تو وہ اڑتے اڑتے وزیرِ امورِ خوراک کے دروازے پر جا پہنچا۔
شام تک پنڈت جی نے تھوڑا آرام کیا اور میں نے بھی کانوں کو کچھ سکون دیا۔ پھر یکایک شہر میں شور مچ گیا کہ “صف شکن واپس آ گیا!” دربار میں عید کا سماں، ہر طرف خوشیاں، تالیوں کی گونج اور نواب صاحب کے محل میں چراغاں۔ صف شکن آنگن کے بیچوں بیچ کھڑا، یوں چیخ چیخ کر اپنی مہماتِ فراری اور بازگشتِ واپسی سنا رہا تھا گویا ہمالیہ فتح کر آیا ہو۔ اس کے چاروں طرف مصاحبین جھکے ہوئے تھے، کوئی اس کی چونچ کا زاویہ سراہتا، کوئی اس کی پرواز کی بلندی، اور کچھ تو اس کے پنجوں کی ساخت کو ہی “قومی حکمتِ عملی” قرار دے رہے تھے۔
نواب صاحب بھی اٹھے، چہرے پہ فتح کی لالی اور لبوں پر خطبہ۔ فرمایا:
“صف شکن کی واپسی محض واپسی نہیں، ایک نیک شگون ہے۔ یہ ایک نشانِ فخر ہے، اور ہم پر ظلم ہو گا اگر ہم اس قافلہ شکن، حریف کو روندنے والے، آنگن کی آنکھ کا تارا صف شکن کو فوراً ہی فیلڈ مارشل کے لقب سے نہ نوازیں۔” سبحان اللہ سبحان اللہ ، مصاحب والہانہ انداز میں جھومنے لگے ،
“حضور کا جواب نہیں ….”
“ہیرے کی قدر صرف نواب صاحب جیسا جوہری ہی جانتا ہے"
چنانچہ فوراً ہی تانبے کی ایک نئی تختی بنوائی گئی، جس پر سنہری الفاظ میں کندہ کیا گیا:
“فیلڈ مارشل صف شکن: فاتحِ مشرق، سورماے آنگن، رعبِ قصر”
نواب کے مصاحبین نے تالیاں پیٹیں، چند نے رقت طاری ہونے پر آنکھیں پونچھیں، اور ایک دو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ “ہمیں اپنی خوش بختی پر رشک آتا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں صف شکن جیسا مردِ میدان ہمارے درمیان ہے۔”
میں نے دل ہی دل میں انا للّٰہ پڑھا، پنڈت جی سے رخصت چاہی، اور صف شکن کے حضور سر خم کر کے، اپنی عاجزانہ عقیدت پیش کر کے واپس آ گیا۔
اب سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ تو واقعی بدل گیا ہے۔
پہلے میدان جنگ میں فیلڈ مارشل بنتے تھے،
اب نواب کے آنگن میں...