سپریم کورٹ ججز ٹرانسفرز و تبادلہ کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی ۔
جوڈیشل کمیشن کیلئے ججز کی تقرری لازمی ہے،صدر پاکستان کے لیے جج کا تبادلہ کرنا لازمی نہیں۔فیصل صدیقی
صدر مملکت کو تبادلہ کیلئے کوئی کیسے انفورس کر سکتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر
صدر مملکت کا تبادلہ کا آئینی اختیار ہے۔آپ دلائل ججز کے ٹرانسفر تک محدود رکھیں۔جسٹس محمد علی مظہر کا فیصل صدیقی سے مکالمہ
آپ نے دلائل کے آغاز میں کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔جسٹس نعیم اختر افغان
آپ کا کہنا تھا دلائل میں سنیارٹی کے ایشو کو فوکس کروگا۔جسٹس صلاح الدین پنور
میرا نقطہ ہے جج کا تبادلہ ٹائم باونڈ ہے۔فیصل صدیقی
فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں،ان ججز کی تعیناتی تین سال کیلئے ہوتی ہے۔وکیل فیصل صدیقی
فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی کا تبادلہ کے ایشو سے کیا تعلق ہے۔جسٹس محمد علی مظہر
ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے۔ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کا تبادلہ کا اسٹیٹس برابر ہوتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس آصف ایڈیںشنل جج تھے،ایڈیںشنل جج کی تبادلہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے تقرری ہو سکتی ہے۔کیا جوڈیشل کمیشن جسٹس آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارکردگی کی بنا پر مستقل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔فیصل صدیقی
چیف جسٹس کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی لیکن قائم مقام چیف جسٹس کی ٹرانسفر ہو سکتی ہے،منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں میں الجہاد کیس کا حوالہ دیا تھا، فیصل صدیقی
منیر صاحب نے تو اس پوائنٹ کا پورا آپریشن کیا تھا،جسٹس شکیل احمد
آپ نے ٹائم باؤنڈ کی بات کی کوئی وجہ تو دیں کہ کیوں ٹائم باؤنڈ ہوتا ہے، جسٹس مظہر
میں آپکو وجوہات بیان کروں گاکہ ٹائم باؤنڈ کیوں ضروری یے،فیصل صدیقی
کیا بھارت میں بھی ٹائم باؤنڈ کا کونسیپٹ ہے،ہمارا آرٹیکل 200اور انکا بھی آرٹیکل ہے کہیں ٹائم باؤنڈ کے حوالے سے نہیں لکھا،جسٹس مظہر
آپ کہتے ہیں ان ججز کی ٹرانسفر ٹائم باونڈ نہیں ہے،جسٹس محمد علی مظہر
فرض کریں اگر انہی ججز کو دوبارہ سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو انکی پھر وہاں پر کیا سنیارٹی ہوگی،جب ججز دوبارہ سے اپنی ہائیکورٹ میں جائینگے تو پھر یہ سنیارٹی کا مسئلہ ہو جائے گا،جسٹس محمد علی مظہر
انڈیا میں ٹرانسفر ججز کی سنیارٹی طے ہے ہمارے پاس مسئلہ ہے،جسٹس محمد علی مظہر
بھارت میں سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی،جسٹس شکیل احمد
انڈیا میں ٹرانسفر ججز حلف لیتے ہیں،آپ کا جو پوائنٹ ہے کہ یہاں پر حلف نہیں لیا جاتا تو یہ کہیں پر نہیں لکھا،فیصل صدیقی
شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ میں جب قائمقام چیف جسٹس بنتے ہیں تو حلف لیا جاتا ہے،ٹرانسفر جج کے واپس جانے پر ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے انکی سنیارٹی نیچے سے شروع ہوں،فیصل صدیقی
ٹرانسفر جج کے دوبارہ سے حلف لینے سے پرانی والی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اگر جج جہاں پر ٹرانسفر ہوا ہے تو وہاں کا حلف لینے سے فرق نہیں پڑتا،فیصل صدیقی
اگر کوئی جج ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ قائمقام جج کے طور پر آتا ہے تو ہائیکورٹ میں اس کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی،فیصل صدیقی
اس طرح ہائیکورٹ سے ٹرانسفر جج واپس پرنسپل سیٹ پر جائے گا تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی،فیصل صدیقی
آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا ٹرانسفر محدود وقت کیلئے ہوگی، جسٹس صلاح الدین پہنور
بھارت میں تو جج ٹرانسفر سے انکار کرے اسے گھر جانا پڑتا ہے،پاکستان میں ٹرانسفر ہونے والے جج نے اسکی رضامندی پوچھی جاتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مثال موجود ہے، انھوں نے سپریم کورٹ آنے سے انکار کیا،پھر بھی وہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ فرائض سرانجام دیتے رہے، جسٹس محمد علی مظہر
سپریم کورٹ کسی گزشتہ قانون سازی کی ہسٹری کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کر سکتی ہے،بنیادی سوال ہی یہی ہے ٹرانسفر ہوکر آنے والا جج نیا حلف لے گا یا نہیں، جسٹس محمد علی مظہر
آپ درخواست گزاران کے وکلاء کے دلائل میں اختلاف ہے، جسٹس محمد علی مظہر
آپ نے دلائل میں کہا ٹرانسفر ہونے والے جج کو نیا حلف لینا پڑے گا،دوسری طرف کہا جارہا ہے ٹرانسفر مستقل نہیں ہوسکتی، جسٹس محمد علی مظہر
ایک جج پہلے ایک حلف اٹھائے گا، پھر ٹرانسفر ہوکر نئی ہائیکورٹ میں حلف اٹھائے گا،پھر محدود وقت کے بعد وہی جج واپس اپنی ہائیکورٹ جاکر دوبارہ حلف اٹھائے گا، جسٹس محمد علی مظہر
ایک جج ایک ہی وقت میں دو یا تین تین حلف کیسے لے سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر
فرض کریں جسٹس ڈوگر صاحب ٹرانسفر پر حلف اٹھائیں،پھر دوبارہ اپنی پرانی ہائی کورٹ کا حلف اٹھاتے ہیں، وہاں تو انکی سینارٹی سب سے نیچے ہو جائے گی، جسٹس محمد علی مظہر
ایسے میں تو سینارٹی کا نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا جسٹس محمد علی مظہر
اگر بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تمام ہائیکورٹس میں اکھٹی طے شدہ سینارٹی لسٹ ہوتی تو الگ بات تھی، جسٹس محمد علی مظہر
پاکستان میں ہائیکورٹس کے ججز کی سینارٹی لسٹ الگ الگ ہے،ایک جج کے ایک وقت میں دو یا تین حلف کیسے ہو سکتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر
اگر آرٹیکل 200 کے تحت مستقل جج تعینات ہو سکتا ہے تو پھر ایسے میں تو جوڈیشل کمیشن غیر موثر ہو جائے گا،جو تین ججز ٹرانسفر ہوکر آئے انھوں نے اپنی اپنی ہائیکورٹس میں الگ الگ حلف اٹھایا، جسٹس نعیم اختر افغان
ایک جج حلف میں کہتا ہے اس نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان
بغیر حلف لیے تو کوئی جج فیصلے ہی نہیں کر سکتا نہ ہی کیس سن سکتا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان
اگر ایک جج نیا حلف لے گا تو پرانا حلف تو ختم ہو جائے گا،سپریم کورٹ میں ایکٹنگ جج اور ٹرانسفر جج میں فرق ہے، جسٹس محمد علی مظہر
ایسی انہونی ہوئی ہے جس کے سبب سوالات آٹھ ریے ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان
آئین کا آرٹیکل 200 پہلے آیا، اسلام آباد ہائی کورٹ بعد میں بنی،اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ میں لکھا ہوا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اور 12 دیگر ججز پر مشتمل ہوگی،جسٹس افغان
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تعیناتی کا زکر ہے، ٹرانسفر کا زکر نہیں ہے، جسٹس نعیم اختر افغان
ایکٹ میں لکھا ہوا ہے ججز چاروں صوبوں سے لیے جائیں گے، ہائیکورٹس کا زکر نہیں ہے، جسٹس نعیم اختر افغان
اگر ٹرانسفر کیا جانا ہوتا تو قانون میں ایسا لکھ دیا جاتا، جسٹس نعیم اختر افغان
جسٹس ڈوگر کی تعیناتی سے10دن پہلے جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا،اس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیشن جج راجہ جوادعباس کے نام پر غور ہوا،اگر بلوچستان سےمستقل جج لاناتھاتو سیشن جج راجہ جوادعباس کانام کیوں ڈراپ کیاگیا،یہ سوال اٹارنی جنرل سےبھی ہے،وہ آئندہ سماعت پرجواب دیں،جسٹس نعیم افغان
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی
کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے